}; document.write(''); آئی فون سے ’چار گنا وزنی‘: دنیا کا پہلا موبائل فون آج کے جدید سمارٹ فونز سے کتنا مختلف تھا؟ - URDU NEWS
آرٹیکل

آئی فون سے ’چار گنا وزنی‘: دنیا کا پہلا موبائل فون آج کے جدید سمارٹ فونز سے کتنا مختلف تھا؟

Written by Admin

3 اپریل 1973 کو مارٹی کوپر نامی موجد نیو یارک شہر کے سکستھ ایونیو پر کھڑے تھے۔ انھوں نے اپنی جیب سے ایک فون بُک نکالی۔

پھر وہ سفید رنگ کی ایک بڑی ڈیوائس پر نمبر ملانے لگے۔ انھوں نے اس عجیب سی چیز کو اپنے کان سے لگا لیا۔ اس وقت آس پاس سے گزرنے والے انھیں حیرت سے دیکھ رہے تھے۔

کوپر اس وقت موٹرولا کمپنی میں انجینیئر تھے۔ انھوں نے حریف کمپنی بیل لیبارٹریز میں کام کرنے والے ایک ہم منصب کو خوشی خوشی بتایا کہ وہ ان سے پہلے پرسنل، ہینڈ ہیلڈ اور پورٹیبل سیل فون سے بات کر رہے ہیں۔

وہ یاد کرتے ہیں کہ یہ سن کر لائن کی دوسری جانب مکمل خاموشی ہوگئی۔ ’مجھے لگتا ہے وہ اپنے دانت پیس رہا ہوگا۔‘

بیل لیبز کی توجہ موبائل فون بنانے کی بجائے کار فون بنانے پر تھی۔ ’کیا آپ اس بات پر یقین کر سکتے ہیں؟ ہم اس کاپر کی تار کی وجہ سے 100 سال سے زیادہ عرصے تک اپنے گھروں اور دفاتر میں قید رہے۔ اور اب وہ ہمیں اپنی کار میں قید رکھنا چاہتے تھے!‘

کوپر اور موٹرولا کار فون بنانے کے حق میں نہیں تھے اور تاریخ نے انھیں صحیح ثابت کیا۔

پہلا موبائل فون، پہلی کال

تاریخ کی پہلی موبائل فون کال کیسے ملائی گئی، اس کی بنیاد آج تک وہی ہے۔ فون آپ کی آواز کو الیکٹرک سنگل میں تبدیل کرتا ہے اور ایک ریڈیو ویو جاری کی جاتی ہے۔ یہ ریڈیو ویو ایک ٹاور کے پاس جاتی ہے جو اسے اس شخص کے پاس منتقل کر دیتا ہے جسے آپ کال ملا رہے ہوں۔ یہی طریقہ ریورس میں چلتا ہے جب دوسرا شخص آپ سے بات کرے تاکہ آپ اسے سن سکیں۔

لیکن مسئلہ یہ تھا کہ ماضی میں ایسے ٹاور نہیں پائے جاتے ہیں۔۔۔ باقی اندازہ تو آپ خود لگا سکتے ہیں۔

تاہم آج کے موبائل فون ماضی کے اُن فونز جیسے بالکل نہیں۔ اس بڑے، کے بورڈ کے سائز کے موٹرولا ماڈل کو ہی دیکھ لیں۔

اس پہلی کال کے 11 سال بعد مارٹی کوپر کے پروٹوٹائپ کا کمرشل ورژن ’موٹرولا ڈائنیٹک 8000 ایکس‘ کو 1984 میں متعارف کرایا گیا۔ موبائل فون میوزیم کے سربراہ بین ووڈ کے مطابق آج کے دور کے حساب سے اس کی قیمت 11700 ڈالر (ساڑھے بتیس لاکھ پاکستانی روپے) بنتی ہے۔ ’بنیادی طور پر اس میں آپ نمبر ملا کر کسی کو کال ملا سکتے تھے۔‘

بین ووڈ کہتے ہیں کہ ’اس میں میسیجنگ، یا کیمرے کی آپشن نہیں تھی۔ اس میں تیس منٹ کا ٹاک ٹائم تھا، بیٹری کو چارج کرنے میں 10 گھنٹے لگتے تھے، قریب 12 گھنٹے کا سٹینڈ بائی ٹائم ملتا تھا اور اس پر چھ انچ کا انٹینا لگا ہوا تھا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کا وزن 790 گرام تھا جو کہ آئی فون 15 سے چار گنا زیادہ ہے۔

پہلا موبائل فون، پہلی کال

تاہم کوپر آج کے دور کے موبائل فونز کے ڈیزائن سے زیادہ متاثر نہیں۔ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ انھوں نے کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ موبائل فون کیمرے اور انٹرنیٹ تک رسائی کے ساتھ ’سپر کمپیوٹر‘ بن جائیں گے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’آج کے موبائل فونز کا معیار اوسط ہے۔ کئی پہلوؤں سے دیکھا جائے تو یہ کوئی بہت اچھے فون نہیں۔‘

’ذرا سوچیے۔ آپ بس پلاسٹک اور گلاس استعمال کرتے ہیں اور اس کے سر پر چپکا دیتے ہیں۔ آپ اسے بڑی مشکل سے پکڑ پاتے ہیں۔ آپ کو کوئی بھی مزیدار کام کرنے کے لیے پہلے ایپ انسٹال کرنی پڑتی ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ مستقبل میں مصنوعی ذہانت لوگوں کی انفرادی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کے لیے موبائل فون کا انتخاب کرے گی۔

وہ کہتے ہیں کہ ایک دن آئے گا جب ڈیوائس ہماری صحت کی نگرانی کرے گی، ہماری پیداوار بڑھائے گی اور ہماری زندگیوں میں بہتری لائے گی۔

وہ یہاں تک کہتے ہیں کہ موبائل فون جنگوں کے خطرے کو بھی ٹال دیں گے۔ ’سیل فون خود سے یہ سب نہیں کرے گا۔ مگر ان کا مستقبل میں مرکزی کردار ہوگا۔‘

کوپر کو جدید موبائل فونز سے کئی شکایات ہیں۔ اور شاید خفیہ طور پر وہ آج بھی اُسی موبائل ڈیوایس سے لگاؤ رکھتے ہیں جسے انھوں نے 50 سال قبل نیو یارک کی ایک سڑک کنارے تھام رکھا تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ابھی تو موبائل فون کے انقلاب کی شروعات ہے۔‘

About the author

Admin

Leave a Comment