}; document.write(''); چین میں خواتین اپنے اخراجات میں کمی کے لیے اجنبیوں کے ساتھ شراکت کیوں کر رہی ہیں؟ - URDU NEWS
آرٹیکل دلچسپ و عجیب

چین میں خواتین اپنے اخراجات میں کمی کے لیے اجنبیوں کے ساتھ شراکت کیوں کر رہی ہیں؟

Written by Admin

چین کے شہر ژیامن میں رہنے والی دو بچوں کی 36 سالہ والدہ ژاؤ ژو کہتی ہیں کہ ’ہمارے پاس ہر سال بمشکل ہی کُچھ پیسے بچ پاتے ہیں۔ اس صورتحال کے باعث میں خود کو غیر محفوظ محسوس کرتی تھی لیکن مجھے نہیں معلوم تھا کہ میں کیا کروں۔‘

کورونا کی وبا کے دوران ژاؤ زو اور اُن کے شوہر کی تنخواہوں میں 50 فیصد کٹوتی ہو گئی تھی۔ یہ اُن کے خاندان کے لیے ایک بہت بڑا دھچکا تھا خاص طور پر ایسی صورتحال میں جب ژاؤ کو اپنی کینسر سے متاثرہ والدہ کی دیکھ بھال کی ذمہ داری بھی نبھانی تھی۔

حالیہ برسوں میں نوجوان چینی شہریوں میں ’ڈا زی‘ نامی ایک رجحان میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ ’ڈا زی‘ کا مطلب ہے شراکت دار تلاش۔ اور اب بہت سے نوجوان چینی شہری بھی انٹرنیٹ پر اپنے جیسی دلچسپیوں کے حامل افراد کی تلاش میں ہیں۔

لیکن ایک ساتھ سفر کرنے یا ورزش کرنے کے بجائے، ژاؤ ژو نے ایسے لوگوں کی تلاش تھی جو ان کی طرح پیسہ بچانا چاہتے تھے۔

ہیش ٹیگ ’سیونگ ڈا زی‘ سب سے پہلے فروری 2023 میں انسٹاگرام کے چین کے ورژن ’ژاؤانشو‘ پر سامنے آیا اور ڈیٹا کے تجزیہ کرنے والی فرم ’نیوز رینک‘ کے مطابق اس کے بعد سے اب تک اس ہیش ٹیگ کو 17 لاکھ ویوز مل چکے ہیں۔

’ویبو‘ پر اس ہیش ٹیگ سے متعلقہ موضوعات کو لاکھوں بار دیکھا جا چکا ہے۔ تاہم درست تعداد کے بارے میں کُچھ کہا نہیں جا سکتا، لیکن سوشل میڈیا پر سامنے آنے والے مشاہدات ظاہر کرتے ہیں کہ اب کم از کم ہزاروں افراد کو آن لائن گروپس سے بچانے والے شراکت دار یا پارٹنرز مل گئے ہیں۔

زیادہ تر ممبران خواتین پر مشتمل ہیں جن کی عمریں 20 سے 40 سال کے درمیان ہیں جن میں سے اکثر مائیں ہیں۔ کچھ کہتی ہیں کہ وہ اپنے بچوں کی تعلیم کے لیے بچت کرنا چاہتی ہیں، جو چین میں آئے روز زیادہ سے زیادہ مہنگی ہوتی جا رہی ہے۔

کچھ کہتی ہیں کہ وہ نقد رقم رکھنے کو ترجیح دیتی ہیں کیونکہ یہ سرمایہ کاری سے زیادہ منافع بخش ہے۔ پھر بھی ان میں سے بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ انھیں ممکنہ طور پر ملازمت کے چھوٹ جانے اور تنخواہ میں کٹوتی کے لیے تیاری کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ چین کی معیشت اب مستحکم نہیں رہی۔

سنگاپور کی نیشنل یونیورسٹی میں پبلک پالیسی کے پروفیسر لو ژی کا کہنا ہے کہ چین کے لوگوں میں پہلے ہی بچت کرنے کی بہت زیادہ عادت ہے اور حالیہ برسوں میں اس میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ لیکن چین کے شہریوں کی جانب سے کی جانے والی اس بچت کی ایک اہم اور بڑی وجہ چین میں ’مستقبل کے بارے میں پائی جانے والی غیر یقینی کی صورتحال اور معیشت پر عدم اعتماد‘ بھی ہے۔

A customer purchases potatoes at a supermarket on March 9, 2024 in Congjiang County, Qiandongnan Miao and Dong Autonomous Prefecture, Guizhou Province of China
،تصویر کا کیپشنچین میں خواتین عام طور پر گھریلو اخراجات کا انتظام کرتی ہیں اور کفایت شعاری سے کام لیتی ہیں

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، چینی گھرانوں نے 2023 میں بینک ڈپازٹس میں تقریباً 138 گھرب یوآن (19.1 کھرب ڈالر) کی بچت کی، جو کہ گذشتہ سال کے مقابلے میں تقریباً 14 فیصد زیادہ ہے۔

گذشتہ چند سالوں سے مُلک میں موجود سخت کووِڈ پالیسی کے بعد، چینی معیشت کی بحالی قلیل المدتی تھی۔ اب اسے افراط زر کے دباؤ، غیر ملکی سرمایہ کاری میں کمی اور مقامی حکومت کے بڑھتے ہوئے قرضوں کا سامنا ہے۔

چین میں عام طور پر گھریلو اخراجات کی ذمہ داری خواتین پر ہوتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ زیادہ خواتین بچت کر رہی ہیں جو اس بات کا اشارہ ہے کہ بیروزگاری پھیل رہی ہے۔ ڈاکٹر لو کے مطابق تازہ ترین سرکاری اعداد و شمار کے مطابق بے روزگاری کی شرح میں لگاتار تین ماہ سے اضافہ ہوا ہے جو انتہائی خطرناک بات ہے۔

لوگوں کے یوں بچت کرنے کے رجحان میں اضافہ چین کے لیے اپنی معیشت کو دوبارہ متوازن کرنے میں مُشکلات پیدا کر سکتا ہے۔ گذشتہ دہائیوں میں، بنیادی ڈھانچے کی سرمایہ کاری اور کم لاگت والی مینوفیکچرنگ کی وجہ سے زبردست ترقی ہوئی لیکن جیسے جیسے چینی معیشت پختہ ہو رہی ہے، ماہرین کا کہنا ہے کہ ترقی کو برقرار رکھنے کے لیے گھریلو کھپت کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔

ڈاکٹر لو کہتے ہیں کہ زیادہ بچت چین کے لیے لیکویڈیٹی کے جال کا باعث بن سکتی ہے، جو 1990 کی دہائی میں جاپان کے تجربے کا عکاس ہو گا۔ اس کا مطلب ہے کہ لوگ نقد رقم اپنے پاس رکھیں گے اور اسے خرچ کرنے یا سرمایہ کاری کرنے سے گریز کریں گے اس کے باوجود کہ شرح سود بہت کم ہے۔

پریشانی اور دوستی

ژاؤ ژو اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھتی ہیں کہ وہ توانائی کے شعبے میں کام کر رہی ہیں کیونکہ یہ ایک پھیلتی ہوئی صنعت ہے جس نے گذشتہ سال ملک کی اقتصادی ترقی میں 40 فیصد حصہ ڈالا تھا۔ تاہم وہ خود کو ’مُشکل حالات کے لیے تیار‘ رہنے پر مجبور محسوس کرتی ہے کیونکہ اُن کے بہت سے دوست اور خاندان کے افراد گذشتہ سالوں میں اپنی نوکریوں سے محروم ہوئے ہیں۔

فروری میں ژاؤ ژو نے کئی بچت کرنے والے گروپس میں شمولیت اختیار کی۔ ایسے گروپس میں شریک افراد ہر روز اپنے بجٹ اور اخراجات کی تفصیلات ظاہر کرتے ہیں۔ وہ ایک دوسرے کو زبردستی خریداری کرنے سے بھی روکتے ہیں۔

Xiao Zhuo's spreadsheet of daily saving goals
،تصویر کا کیپشنژاؤ ژو اس سپریڈ شیٹ کی مدد سے روزانہ بچت کا ہدف چنتی ہیں

ژاؤ ژو نے پیسے بچانے کے کچھ نئے طریقے بھی سیکھے ہیں۔ مثال کے طور پر، انھوں نے ایک موبائل ایپ کے بارے میں سیکھا جس میں دل کی شکل والی سپریڈشیٹ ہے، جس میں 365 سیلز 1 سے 183 یوآن تک روزانہ کی بچت کے ہدف کی نشاندہی کرتے ہیں۔ اس کی مدد سے وہ ایک سال کے بعد وہ تقریباً 34,000 یوآن کی بچت کر سکیں گی۔

پہلے کی بات اور ہے جب ژاؤ ژو اپنی پسند کی کوئی بھی چیز سپر مارکیٹ میں ٹرالی میں ڈالتیں اور بس خرید لیتی تھیں۔ لیکن اب وہ گروسری کی فہرست بناتی ہیں اور سپر سٹور جا کر اس پر قائم رہتی ہیں یعنی کوئی چیز بےجا نہیں خریدتیں۔ سیونگ پارٹنر ملنے کے ایک ماہ بعد، انھوں نے اپنے اخراجات میں 40 فیصد کمی کر دی ہے۔ وہ پراُمید ہیں کہ وہ ایک سال کے بعد ایک لاکھ یوآن بچانے میں کامیاب ہو جائیں گیں، جو پہلے سے دس گنا زیادہ ہے۔

دوسری خواتین یہ بھی کہتی ہیں کہ ’ڈا زی‘ رکھنے سے انھیں پیسے بچانے میں مدد ملی ہے۔ ایک رکن کا کہنا ہے کہ اب وہ باہر سے آرڈر کرنے کے بجائے خود اپنا کھانا پکاتی ہیں اور انھوں نے غیر ضروری خریداریوں میں کمی کر دی ہے۔

ایک اور نے کہا کہ انھوں نے اپنے آپ کو کام میں مصروف رکھ کر زیادہ بچت کی ہے اور وہ نئے مشاغل تلاش کریں گی، جن پر خرچ زیادہ نہیں آئے گا۔

Ms Chen and her family

کیش ہی اب سب کُچھ ہے

کچھ خواتین نے بچت کے زیادہ روایتی طریقے کا انتخاب کیا ہے جیسا کہ گھر میں نقد رقم رکھنا۔ سٹیٹسٹا کے مطابق، یہ غیر معمولی بات ہے کیونکہ چین بڑی حد تک کیش لیس ہو گیا ہے اور یہ وہ معاشرہ ہے جس میں تقریباً 70 فیصد آبادی موبائل ادائیگیوں کا استعمال کرتی ہے۔

مرکزی صوبے ہینان میں ایک بیوٹی پارلر چلانے والی 32 سالہ مس چن کہتی ہیں کہ ’میں اپنے نوٹوں کے ڈھیر کو موٹے ہوتے دیکھ کر خود کو محفوظ اور مطمئن محسوس کر رہی ہوں۔‘ انھوں نے اپنی زیادہ تر آمدنی بینک سے نکال کر بطور نقد رقم اپنے پاس رکھ لی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ایک بار جب یہ رقم 50,000 یوآن تک پہنچ جائے گی تو وہ فکسڈ ڈیپازٹ کریں گی۔

اب وہ خریداری کے لیے بھی نقد رقم بھی استعمال کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، یہ تکلیف دہ ہے، لیکن یہ ان کے لیے اپنے اخراجات کو کم کرنے کا ایک طریقہ ہے۔

معاشی بدحالی کے درمیان، چن نے گاہکوں کی ایک قابل ذکر تعداد کھو دی ہے کیونکہ اُن کے بہت سے خریداروں نے اپنے اخراجات کو کم کر دیا ہے۔

چن اور ان کے شوہر دونوں اپنے اپنے والدین کے اکلوتے بچے ہیں یعنی انھیں اپنے چار بوڑھے والدین کی دیکھ بھال اور اُن کا خیال بھی رکھنا ہے۔ وہ اپنے دونوں بیٹوں کے لیے کم از کم دس لاکھ یوآن بچانا چاہتے ہیں۔ چین میں شادی کرنے پر مردوں سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ اُن کے پاس اپنا مکان ہو۔ لہذا والدین کے لیے اپنے بیٹوں کے لیے جائیداد خریدنا عام بات ہے۔

ان کے اندازے کے مطابق ان کے خاندان کو کم از کم پچاس لاکھ یوآن کی بچت کرنے کی ضرورت ہے۔ مگر یہ سب بھی شاید کافی نہیں ہو گا کیونکہ چن اب دوبارہ حاملہ ہیں۔

اُن کا کہنا ہے کہ ’ماضی میں میرے پاس بچت کا کوئی منصوبہ نہیں تھا۔ ہاتھ میں نقدی ہونے سے مجھے کم پریشانی محسوس ہوتی ہے۔‘

About the author

Admin

Leave a Comment