}; document.write(''); کیا غیر ملکی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم کا نقصان واقعی اسرائیل کو ہو گا؟ - URDU NEWS
Uncategorized

کیا غیر ملکی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم کا نقصان واقعی اسرائیل کو ہو گا؟

Written by Admin

غزہ پر اسرائیل کے حملے کے بعد دنیا بھر میں مختلف ممالک خصوصاً مسلم ممالک میں عوامی سطح پر شدید غم و غصہ پایا جا رہا ہے۔

اسرائیل کی جانب سے غزہ پر مسلسل بمباری اور جنگ بندی نہ کرنے کے فیصلے اور ایسے میں دنیا کے طاقتور ممالک کی جانب سے اسرائیل کی حمایت نے اس غم و غصے کو مزید ہوا دی ہے۔

ایسے میں اسرائیل کی جانب سے جنگ بندی نہ کرنے کے بعد پاکستان میں ایسی غیر ملکی کمپنیوں کی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جا رہا ہے جن کے مالکان یہودی ہیں اور یہ مہم زور پکڑتی جا رہی ہے۔

سوشل میڈیا پر شروع ہونے والی اس بائیکاٹ مہم سے متعلق مختلف مواد شئیر کیا جا رہا ہے۔ جیسا کہ درجنوں مصنوعات جن سے متعلق صارفین یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ وہ اسرائیلی کمپنیاں بناتی ہیں یا پھر ان کی پیرنٹ کمپنی کے مالکان یہودی ہیں۔

اس میں روزمرہ کے استعمال کی چیزوں سمیت کئی بیشتر ملٹی نیشنل فوڈ چینز کا بائیکاٹ بھی شامل ہے۔

’بائیکاٹ کام کر رہا ہے۔۔۔ اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کام کر رہا ہے۔‘ یہ وہ لائن ہے جو آج کل سوشل میڈیا پر کئی جگہ نظر آرہی ہے۔

بائیکاٹ اسرائیل مہم کا مقصد کیا ہے؟

پاکستان میں جاری اس بائیکاٹ مہم میں کئی لوگ اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ جس میں وہ سوشل میڈیا پر پوسٹس کرنے کے علاوہ مختلف مارکیٹوں اور دکانوں سے مخصوص برانڈز کے بورڈ بھی ہٹا رہے ہیں۔

بہت سوں نے اس مہم کے بارے میں سوشل میڈیا پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’اگر ہم اسرائیلی ظلم کو روک نہیں سکتے تو کم از کم ان کو معاشی طور پر نقصان تو پہنچا سکتے ہیں۔‘

اس مہم کا حصہ بننے والے پاکستانی محمد علی خان کا بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اسرائیل کے خلاف بائیکاٹ کی یہ مہم نئی نہیں۔

’یہ مہم 2005 میں بائیکاٹ ڈی انویسٹمینٹ اینڈ سینکشنز (بی ڈی ایس) کے نام سے شروع ہوئی تھی جو ایک غیر متشدد مہم ہے۔ میں بطور پاکستانی اس مہم کا حصہ اس لیے ہوں کیونکہ اسرائیل فلسطینیوں پر مظالم کر رہا ہے اور دنیا میں پاکستان سمیت کوئی بھی حکومت اسرائیلی جارحیت کو روک نہیں رہے۔ اس لیے ہم بطور عام انسان معاشی طور پر اس کی مزاحمت کر رہے ہیں۔‘

دوسری جانب سوشل میڈیا صارفين بھی اسی مقصد کے تحت اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے اس بائیکاٹ کا حصہ بن رہے ہیں۔

کئی صارفین نے ایسی غیر ملکی مصنوعات کی تصاویر بھی لگائیں جس میں خریدار کو ایک چیز کے ساتھ دوسری چیز مفت دی جا رہی ہے لیکن وہ ان اشیا کا بائیکاٹ کر رہے ہیں۔

زیادہ تر صارفین مختلف کیپشن لکھ کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ یہ بائیکاٹ مہم اثر انداز ہو رہی ہے۔

غزہ
،تصویر کا کیپشناسرائیل کی جانب سے غزہ پر مسلسل بمباری اور جنگ بندی نہ کرنے کے فیصلے اور ایسے میں دنیا کے طاقتور ممالک کی جانب سے اسرائیل کی حمایت نے غم و غصے کو مزید ہوا دی ہے۔

کیا واقعی ہی اس مہم کا نقصان اسرائیل کو ہو گا؟

دوسری جانب بہت سے لوگ اس بائیکاٹ مہم سے متعلق یہ سوال بھی اٹھا رہے ہیں کہ کیا اس مہم سے واقعی ہی اسرائیل کو نقصان ہو گا یا پھر اس سے پاکستانی معیشت کو نقصان پہنچے گا؟

اس سوال پر بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے ماہر معیشت ڈاکٹر نور فاطمہ کا کہنا تھا کہ ’جہاں تک یہ خیال ہے کہ اس سے پاکستانی معیشت پر بہت فرق پڑے گا تو یہ درست نہیں کیونکہ یہ معاملہ غیر ملکی کمپنیوں کی مصنوعات یا برانڈز کا ہے اور انھوں نے پہلے ہی اپنے منافع کی شرح بہت زیادہ رکھی ہوتی ہے۔‘

’ہاں اگر یہ مہم آنے والے دنوں میں زیادہ زور پکڑتی ہے تو یہ ممکن ہے کہ ان مخصوص کمپنیوں کی سیل اور شئیرز کی مالیت گر جائے۔‘

نور فاطمہ نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ جہاں تک پاکستان میں برانڈز یا مصنوعات کے بائیکاٹ سے اسرائیل کو نقصان پہنچنے کی بات ہے تو مفروضہ بھی درست نہیں۔

’کیونکہ پاکستان کے اسرائیل کے ساتھ نہ ہی کوئی تجارتی تعلقات ہیں اور نہ ہی پاکستان وہاں کسی قسم کی برآمدات کر رہا۔ بائیکاٹ مہم ایک سوشل اور جذباتی مہم ہے۔ اس سے لوگ اپنے احساسات کا اظہار کر رہے ہیں۔‘

انھوں نے مزيد کہا کہ اس مہم میں کئی ایسی کمپنیوں کے نام بھی سامنے آرہے ہیں جن کا تعلق اسرائیل سے نہیں لیکن انھیں اس لیے ٹارگٹ کیا جا رہا ہے کیونکہ انھوں نے اسرائیل کی حمایت کی ہے۔یہ بھی پڑھیے

کیا اس مہم سے پاکستان میں ان لوگوں کی نوکریوں کو خطرہ ہو سکتا ہے جو ایسے اداروں میں کام کر رہے ہیں جن کا بائیکاٹ کیا جا رہا ہے؟

اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر نور فاطمہ کا کہنا تھا کہ اگر ایسی کمپنیوں کو زیادہ نقصان پہنچنے کے نتیجے میں وہ کمپنی بند ہو جاتی ہے تو پھر ایسا ہو سکتا ہے۔

اس مہم میں متحرک انداز میں حصہ لینے والے محمد علی خان کے سامنے جب یہ سوال رکھا گیا تو ان کا کہنا تھا ’میرا نہیں خیال کہ پاکستان کو اس کا نقصان ہو گا۔ یہاں یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہم جن برانڈز کا بائیکاٹ کر رہے ہیں وہ روز مرہ زندگی کے لیے ضروری نہیں۔‘

محمد علی خان کا کہنا ہے کہ ’بے شک اس مہم میں کچھ ایسے برانڈز بھی شامل ہیں جن کا تعلق اسرائیل سے نہیں لیکن وہ اسرائیلی جارحیت کی حمایت کر رہے ہیں۔ جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ اس وقت اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ ہم بطور مسلمان اور انسان اس وقت اسرائیل کے خلاف کھڑے ہیں۔‘

boycott

غیر ملکی مصنوعات کے بائیکاٹ سے کیا فرق پڑ رہا ہے؟

اس بائیکاٹ مہم کے زد میں آنے والے چند برانڈ ایسے ہیں جن کی سیل میں پچھلے چند ہفتوں میں فرق آیا ہے۔ عام طور پر ایسے برانڈز پر کافی زیادہ رش دیکھنے کو ملتا ہے جو اب نظر نہیں آرہا۔

ایسے ہی برانڈز کو خام مال پہنچانے والی ایک ملٹی نیشنل کمپنی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ اس مہم کے بعد سے ہماری سیل میں بھی کمی آئی ہے جبکہ متعدد کمپنوں کی جانب سے آڈرز بھی منسوخ کیے گئے ہیں۔

پاکستان میں آپریٹ کرنے والی ایک اور بین الاقوامی کمپنی میں کام کرنے والے ملازم نے بتایا کہ ہماری سیل میں ستر فیصد تک کمی آئی ہے جبکہ ہمیں باقائدہ طور پر کمپنی کی جانب سے ہدایات بھی جاری کی گئی ہیں کہ لوگوں میں پائے جانے والے غصے کو مدنظر رکھتے ہوئے آپ نوکری کے دوران خاص خیال رکھیں۔

ایک اور ملٹی نیشل کمپنی کے مالک نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اس بائیکاٹ کا اثر ہر کمپنی پر مختلف انداز میں پڑ رہا ہے تاہم ابھی تک ہماری کمپنی کا کوئی تقصان رپورٹ نہیں ہوا۔

’ہم نے پہلے دن ہی یہ پریس ریلیز جاری کر دی تھی کہ ہماری کمپنی کا اسرائیل کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ اس کے علاوہ یہ وضاحت بھی جاری کی کہ ہماری کمپنی کی پیرنٹ کمپنی امریکی کمپنی ہے۔ ہم نے فلسطين سے اظہار یکجہتی کے طور پر اپنی مارکیٹنگ سٹریٹجی بھی تبدیل کی۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم لوگ پاکستان میں پچھلے ساٹھ سال سے کام کر رہے ہیں اور اس سارے عرصے میں ہمیں کئی مواقع پر بائیکاٹ مہم کا سامنا کرنا پڑا۔

’یہ سچ ہے کہ اس سے فرق پڑتا ہے لیکن وہ نقصان اتنا زیادہ نہیں ہوتا اور نہ ہی ہم اپنے ملازمین کو نوکری سے نکالتے ہیں۔‘

کیا ملٹی نیشنل فرنچائز اپنی پیرنٹ کمپنی کو کسی قسم کے پیسوں کی ادائیگی کرتے ہیں؟

اس سوال کے جواب میں پاکستان میں ایک ملٹی نیشل کمپنی کے مالک کا کہنا تھا کہ ہر برانڈ ایک مخصوص قیمت لیتا ہے اور عموماً یہ سالانہ بنیادوں پر ہوتی ہے۔

اس بارے میں ماہر معیشت ڈاکٹر نور فاطمہ کا کہنا تھا کہ تمام کمپنیاں مختلف شکلوں میں یہ ادائیگیاں کرتی ہیں۔ جیسا کہ کوئی کمپنی فرنچائز فیس ادا کرتی ہے، کوئی کمپنی رائلٹی ادا کرتی ہے جو پانچ یا سات فیصد یا پھر اس سے زیادہ بھی ہو سکتی ہے اور کچھ کمپنیاں منافع کو شئیر کرتی ہیں اور کچھ ایک ہی مرتبہ رقم کی ادائیگی کر کے فرنچائز خرید لیتے ہیں۔

’لیکن یہاں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ فائدہ اصل کمپنی کو کم اور اس کمپنی کو زیادہ ہوتا ہے جو کسی ملک میں آپریٹ کر رہی ہوتی ہے۔‘

About the author

Admin

Leave a Comment