}; document.write(''); پورے ملک میں خلع میں اضافے کا رجحان کیوں؟ - URDU NEWS
آرٹیکل

پورے ملک میں خلع میں اضافے کا رجحان کیوں؟

Written by Admin

اسلام نے ازدواجی تعلق، خاندان اور شوہر بیوی کے رشتے بے انتہا اہمیت دی ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ قرآن پاک میں بھی میاں بیوی کے رشتے، نکاح، طلاق، وراثت کے مسائل اور خانگی زندگی کے دیگر معاملات کا پوری وضاحت وصراحت کے ساتھ ذکر موجود ہے۔

اسلام دین فطرت ہے، چنانچہ اس نے ازدواجی تعلق میں بھی انسانی فطرت اور حالات کے بدلاؤ کو مدنظر رکھتے ہوئے احکامات دیے ہیں۔ اﷲ کا دین بعض دوسرے مذاہب کی طرح ایسی کوئی غیرفطری پابندی نہیں لگاتا کہ ایک بار شادی کے بندھن میں بندھنے کے بعد کبھی علیحدگی نہ ہوسکے۔ اسلام اس علیحدگی کے لیے جہاں مرد کو طلاق کا حق تفویض کرتا ہے وہیں عورت کو خلع حاصل کرنے کا حق دیا ہے، لیکن ہمارا دین ایک مضبوط خاندانی نظام چاہتا ہے، جس میں میاں بیوی ایک دوسرے کے ساتھ ہنسی خوشی اور محبت سے زندگی گزاریں، کیوں کہ خاندان ہی معاشرے کی بنیادی اکائی ہے، اگر کسی خاندان میں دوریاں ہوں گی، نفرت ہوگی، رنجشیں ہوں گی، تو اس سے معاشرے کو بھی یہی کچھ ملے گا۔ اس کے برعکس باہمی محبت واحترام کے ساتھ زندگی بسر کرنے والے گھرانے کے رویے سماج پر بھی منعکس ہوں گے۔

٭کورونا وبا کے دوران طلاق اور خلع کے کتنے مقدمات عدالتوں میں دائر کئے گئے؟

بدقسمتی سے، بلکہ یہ کہنا زیادہ صحیح ہوگا کہ ہمارے ہی اعمال کے باعث اس وقت ہم جہاں دوسرے مسائل سے دوچار ہیں وہیں ہمارا خاندانی نظام بھی تباہی اور تنزلی سے دوچار ہے۔ اس صورت حال کا سب سے بڑا ثبوت پاکستان میں طلاقوں اور خلع کی درخواستوں کی نہایت تیزی سے بڑھتی ہوئی شرح ہے۔ مختلف رپورٹس کے مطابق گذشتہ سال صرف ملک کے ایک شہر لاہور کی عدالتوں سے ایک لاکھ خواتین نے خلع کے لیے رجوع کیا، جس کی وجہ سے دس ہزار سے زائد جوڑوں میں علیحدگی ہوگئی۔ پچھلے سال کے دسمبر میں شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق اس وقت تک لاہور کی عدالتوں میں خلع کے ساٹھ ہزار کے قریب مقدمات زیرسماعت ہیں۔

دوسری طرف ایک رپورٹ بتاتی ہے کہ ’’کورونا کی وبا کے دوران گزشتہ دو برس میں ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں فیملی کورٹس میں دائر ہونے والے علیحدگی کے کیسز میں 700 فیصد اضافہ ہوا۔ سرکاری اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ان 2 برس کے دوران کراچی سمیت پورے صوبہ سندھ میں خواتین کی جانب سے خلع کے لگ بھگ کی تقریباً 5 ہزار 891 درخواستیں دائر کی گئیں۔ اس طرح 2019 کے مقابلے میں 2020 کے دوران خواتین کی جانب سے مختلف مسائل کی وجہ سے خاوند سے الگ ہونے کے مقدمات دائر کرنے میں 722 فیصد اضافہ ہوا، جب کہ 2019 میں صوبے بھر میں خلع کے 632 مقدمات دائر کیے گئے تھے۔ 2020 میں تقریباً 5 ہزار 198خواتین نے شادی ختم کرنے کے لیے عدالتوں سے رجوع کیا جن میں سے 4 ہزار 50 سے زائد کا تعلق کراچی کے 5 اضلاع سے ہے۔‘‘

یہ اعدادوشمار اور حقائق نہایت خوف ناک ہیں، جنھیں پڑھ کر دل لرز اٹھتا ہے کہ ہم اور ہمارا خاندانی نظام کس طرف جارہے ہیں، اور یہ اندیشہ سر اٹھانے لگتا ہے کہ کیا مغرب کے صحت مند رویوں اور بلند اخلاقی اقدار تو ہم نہ اپنا سکے نہ مغربی ممالک کے باسیوں کا معیار زندگی ہمارا مقدر بن پایا ہے، لیکن یہ وہاں کے ٹوٹتے خاندانی نظام اور فرد کی تنہائی کے کرب ناک مسائل ہماری قسمت بننے والے ہیں؟

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے ملک میں خلع اور میاں بیوی میں علیحدگی کی شرح اتنی تیزی سے کیوں بڑھ رہی ہے۔ وکلاء، ماہرین سماجیات، ماہرین نفسیات اور شوہر سے علیحدہ ہونے والی کئی خواتین سے گفتگو کرنے کے بعد اس صورت حال کی جو بنیادی وجوہات میرے سامنے آئی ہیں وہ یہ ہیں:

ٌ٭محبت کی شادی اور توقعات

ان وجوہات میں سب سے اہم محبت کی شادی ہے۔ پسند کی شادی سے پہلے فریقین ایک دوسرے کے سامنے اپنی جو تصویر پیش کرتے ہیں وہ بہت رنگین اور خوب صورت ہوتی ہے، لیکن حقیقت پر مبنی نہیں ہوتی۔ مرد عورت کو اچھی زندگی کے خواب دکھاتا ہے اور عورت مرد کو محبت اور خیال رکھنے اور ہر حال میں ساتھ نبھانے کے سپنے دکھاتی ہے۔ لیکن جب شادی کے بعد زندگی کی تلخ حقیقتوں کا سامنا ہوتا ہے، دونوں کی شخصیات کے منفی رخ ایک دوسرے کے سامنے آتے ہیں اور ایک دوسرے کو دکھائے جانے والے خواب ٹوٹتے ہیں، تو محبت مایوسی اور نفرت میں بدل جاتی ہے، جس کا نتیجہ طلاق یا خلع کی درخواست کی صورت میں نکلتا ہے۔

٭کم آمدنی اور رنگین آرزوئیں

وقت کے ساتھ ساتھ زندگی کے بارے میں ہماری سوچ اور رویے بدل چکے ہیں۔ اب ہر شخص پُرتعیش زندگی کی خواہش کے پیچھے اندھادھند بھاگ رہا ہے۔ تعیشات کے حصول کے لیے وہ کچھ بھی کرنے کو تیار ہے۔ اس نفسیات میں مبتلا خواتین شوہر کی کم آمدنی اور اپنی رنگین آرزوؤں کے درمیان فرق پاکر جذباتی مسائل کا شکار ہوجاتی ہے اور شوہر سے ان کا رویہ تلخ ہوتا چلا جاتا ہے، باہمی جھگڑے فریقین کو ہر دم اشتعال میں رکھتے ہیں، جس کے باعث بات مار پیٹ تک جاپہنچتی ہے، اس سب کا نتیجہ طلاق یا خلع کی صورت میں نکلتا ہے۔

٭عدم برداشت میں اضافہ

مختلف عوامل کی بنا پر ہمارے سماج میں عدم برداشت میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ عدم برداشت ہمیں سیاست اور مذہب کے پلیٹ فارمز ہی پر نظر نہیں آتی، بلکہ اس کا نشانہ گھر بھی بنے ہیں۔ آج کی شہری سماج کی تعلیم یافتہ عورت مردوں کے ایسے بہت سے رویے برداشت کرنے اور سہنے کو تیار نہیں جو ماضی کی خواتین قسمت کا لکھا سمجھ کر جھیل جایا کرتی تھیں۔ دوسری طرف خاص طور پر متوسط، نچلے متوسط طبقے اور غریب طبقے سے تعلق رکھنے والے شوہر بھی معاشی حالات اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کے باعث نفسیاتی مسائل کا شکار ہیں اور ان میں برداشت کا مادہ بہت کم ہوچکا ہے، نتیجتاً گھروں میں ہونے والے جھگڑے علیحدگی کا سبب بن جاتے ہیں۔

٭اسمارٹ فون، سوشل میڈیا اور ٹیلوژن ڈرامے

اسمارٹ فون اور سوشل میڈیا نے مرد اور عورت کا ایک دوسرے سے رابطہ اور تعلق آسان بنا دیا ہے۔ پھر ہمارے ڈراموں میں شادی شدہ مردوں اور عورتوں کے غیراخلاقی تعلقات کو جس طرح جواز دیتے ہوئے پیش کیا جاتا ہے، اس نے بھی اپنے اثرات مرتب کیے ہیں۔ اس سب کی وجہ سے شادی شدہ خواتین اور مرد کے غیر مرد و خواتین کی محبت میں مبتلا ہو جانے یا خاتون کے زندگی بہتر بنانے کی غرض سے کم آمدنی والے شوہر کے مقابلے میں کسی امیر کبیر شخص کی طرف مائل ہوجانے کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے۔ اس طرح خواہشات، حرص وہوس اور لالچ گھروں کو توڑ رہی ہے، جس کا سب سے خوف ناک نتیجہ ایسے بچوں کی شرح میں اضافہ ہے جو باپ کی شفقت سے محروم ہوجاتے ہیں، ماں کی مامتا سے دور کردیے جاتے ہیں یا ماں اور باپ کے درمیان بٹ کر زندگی گزارنا ان کا مقدر بن جاتا ہے۔

خلع اور طلاق کی شرح میں اضافہ روکنے اور خاندانوں کو محبت اور باہمی احترام کی خوب صورت اور ملائم ڈوریوں سے باندھے رکھنے کے لیے ہمیں اپنی اخلاقی اقدار کی طرف پلٹنا ہوگا، یہ سمجھنا ہوگا کہ خوشی اور سکون پُرتعیش زندگی میں نہیں خلوص اور محبت میں ہے، لیکن کیا ہم یہ سمجھ پائیں گے؟

About the author

Admin

Leave a Comment