میرا نام مہرین ہے میری عمر ستائیس سال ہے میں لال پور کے ایک گاؤں میں رہتی ہوں میری عمر بڑھتی جارہی تھی لیکن میری ابھی تک شادی نہیں ہوئی تھی میں اپنی امی اور بار سال کے کے بھائی کے ساتھ اپنے چھوٹے سے گھر میں رہتی تھی میں بہت ہی خوبصورت تھی میں اپنی عمر سے بہت کم دکھتی تھی اس کی وجہ یہ تھی کہ میں اپنی صحت کا بہت خیال رکھتی تھی اور ہر روز گاؤں کی ایک لمبی سی سڑک پر رات کو ورزش کرتی تھی تاکہ میری شادی جلد ہی ہو جائے اور میں بھی کسی کو پسند آجاؤں میری عمر کی ساری لڑکیوں کی شادی
بہت پہلے ہی ہو چکی تھی لیکن میں اپنی پڑھائی مکمل کرنا چاہتی تھی
جس کی وجہ سے جو بھی میرا رشتہ لے کر آتا تھا تو میری امی یہی بول دیتی تھی کہ میں ابھی پڑھ رہی ہوں اس وجہ سے میری عمر کافی بڑھ گئی تھی اب کوئی اچھار شتہ آنا میرے لیے کسی معجزے سے کم نہیں تھا میں گھر میں فری رہتی تھی کچھ دنوں میں نے کمپیوٹر کا کورس شروع کر لیا تھاتا کہ میراد یہان اس کی طرف چلا جائے اور کچھ دن آرام سے گزر جائے اس کورس کو کرنے کا مجھے بہت فائدہ ہوتا تھا میر اوقت بھی گزر جاتا تھا لیکن وہ کورس بھی دو مہینوں کا تھا اس کے بعد میں سوچنے لگی تھی کہ اب کیا کروں میں نے کچھ دنوں کے لیے بچوں کا ٹیوشن پڑھانا شروع کر دیا تھا بچے روز ہی میرے پاس پڑھنے آتے تھ
میں ان کو پڑھانے میں مگن ہو جاتی تھی لیکن کچھ ہی دنوں کے بعد میرا اس چیز سے دل بھر گیا تھا میں روز اپنی سہیلیوں سے ملتی تھی وہ مولوی کے پاس پڑھنے جاتی تھی لیکن وہ مجھ سے پانچ سال چھوٹی تھی وہ میرے سامنے اس مولوی کی بہت تعریف کرتی تھی اس کی تعریف سے میر اول بھی کرتا تھا کہ میں اسے دیکھوں کیوں کہ سننے میں وہ بہت جوان تھا اسی وجہ سے میں نے اپنی امی کو کہا کہ اپنے چھوٹے بھائی فرحان کو مولوی کے پاس لے کر جاتی ہوں کیوں کہ اسے اس عمر میں مولوی سے پڑھنا چاہیے میری امی نے میری بات مان لی تو میں اپنے چھوٹے
بھائی کو لے کر مولوی کے پاس چلی گئی تھی مولوی سچ میں ویسا ہی تھا
جیسے میری سہیلیوں نے مجھے بتایا تھا پر میں واپس آگئی تھی میں اب روز ہی اپنے چھوٹے بھائی کو دوپہر کو مولوی کی طرف سے لینے جاتی تھی کیوں کہ اس وقت میری امی بزی ہوتی تھی میرا بہت دل کرتا تھا کہ میں بھی اس مولوی سے پڑھ سکوں کیوں کہ بہت سی لڑکیاں اس سے پڑھتی تھی پر میری عمر اس سے زیادہ تھی اس وجہ سے مجھے لگتا تھا کہ وہ مجھے نہیں پڑھائے گا ایک مرتبہ میں اپنی کزن کے گھر گئی ہوئی تھی جب میری امی میری جگہ میرے بھائی کو مولوی کی طرف سے لینے چلی گئی لیکن وہ جیسے ہی میرے بھائی کو لے کر گھر آئی تو انہوں نے مجھے بتایا کہ کل سے میں بھی اپنے چھوٹے بھائی کے ساتھ مولوی کے پاس جایا کروں گی
مجھے حیرانی ہوئی تھی پر میں بہت خوش ہو گئی تھی کیوں کہ میری دلی مراد جو پوری ہو گئی تھی اب میں بھی اپنے بھائی کے ساتھ روز مولوی کے پاس جاتی تھی میراروز کا معمول بن چکا تھا لیکن مجھے کچھ دنوں سے عجیب لگنا شروع ہو گیا تھا کیوں کہ وہ مولوی بچوں کے ساتھ بہت مزاق کرتا تھا جو بچوں کو تو بالکل سمجھ نہیں آتا تھا لیکن میں وہ مزاق سمجھ لیتی تھی پھر بھی میں چپ ہی رہتی تھی میں جلدی سے اپنا سبق سنادیتی تھی اور پھر اپنے چھوٹے بھائی کا انتظار کرتی تھی دن ایسے ہی گزرنے لگے تھے ایک دن مولوی نے میری امی سے کہا کہ وہ ہمیں شام کو
آٹھ بجے بھیجا کریں کیوں کہ دن کے وقت وہ مصروف ہوتاہے
پہلے تو میری امی نے مجھے بھیجنا چھوڑ دیا تھا کیوں کہ رات کے وقت میرا گھر سے باہر نکلنا بند تھا پر کچھ دن کے بعد مولوی نے امی کو کہا کہ انہیں گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور وہ مجھے بھی آٹھ بجے بھیج سکتی ہیں امی نے اس کی بات کا یقین کر لیا اور اب وہ مجھے بھی آٹھ بجے فرحان کی ساتھ بھیجنے لگی تھی ہم دونوں آٹھ بجے آتے تھے اور نو بجے تک واپس آتے تھے فرحان کو سبق لیٹ یاد ہوتا تھا اس لیے مجھے اس کا انتظار کرناپڑتا تھا باقی سب لوگ بھی چلے جاتے تھے اور میں اکیلی اس کا انتظار کرنے لگتی تھی ایک دن مولوی نے مجھے اپنے پاس بلایا اور کہنے لگا کہ اسے مجھ سے ایک بات کرنی ہے اس لیے میں اس کے روم میں آؤں
میرا بھائی اس وقت سبق یاد کر رہا تھا میں اندر اس کے روم میں چلی گئی جب اس نے مجھے اپنی پاس بیٹھنے کا کہا میں پہلے تو حیران ہوئی کہ وہ کیا چاہتا ہے لیکن پھر میں بھی اس کے پاس چلی گئی تھی وہ مجھے گھور کر دیکھنے لگا تھا میں اس وقت بہت پچھتائی تھی کہ کاش میں نے وہ سوٹ اس دن نہ پہنا ہوتا کیوں کہ وہ سوٹ بہت فٹنگ میں تھا میں نے جلدی سے اپنا دوپٹہ سیٹ کر لیا تھا اور فوراً باہر نکل آئی تھی مجھے اب اس مولوی سے ڈر لگنے لگا تھا میں نے جلدی سے اپنی چھوٹے بھائی کو ساتھ لیا اور وہاں سے واپس جانے لگی تھی میرے ذہن میں وہی سین چل رہا تھا مجھے رات کو سکون کی نیند بھی نہیں آتی تھی میں نے سکھ کا سانس لیا تھا
کہ میں کسی مصیبت میں نہیں پڑی میں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ اب میں مولوی سے نہیں پڑھوں گی کیوں کہ میری ابھی شادی ہوئی تھی اس لیے مجھے اپنی حفاظت کرنی تھی لیکن میری امی کو اس بات کا علم نہیں تھا اور میں بھی انہیں نہ بتا سکی جب ہی وہ مجھے زبر دستی مولوی سے پڑھنے کے لیے بھیجتی تھی میں اب جلدی سے سبق سنا کر واپس آجاتی تھی اور اپنی بھائی کا انتظار بھی نہیں کرتی تھی دن ایسے ہی گزرنے لگے تھے ایک دن میری امی کو کسی کی شادی میں جانا تھا اس لیے وہ میری چھوٹے بھائی کے ساتھ شادی پر چلی گئی پر انہوں نے مجھے مولوی سے پڑھنے کے لیے بھیج دیا تھا میں اس دن کافی پریشان ہوئی تھی
لیکن میرے پاس اور کوئی چارا نہ تھا جب ہی میں بھی مولوی سے پڑھنے چلی گئی شام کا وقت تھا سب بچے باری باری پڑھ کے چلے گئی پر مولوی نے مجھ سے کوئی سبق نہیں سنا تھا میں بہت ہی حیران ہوئی تھی میں جب بھی اسے کو سنانے کے لیے جاتی تو وہ مجھے پھر سے لائن میں لگا دیتے تھے سب بچے سبق سنا کر واپس گھر چلے تھے اور اب صرف میں ہی رہ گئی تھی جب مولوی صاحب نے مجھے اپنے روم میں بلالیا میں بھی ان کی بات مان کر ان کے پیچھے چلی گئی تھی کیوں کہ باہر ویسے بھی سردی تھی لیکن میری یہ حرکت میری سب سے بڑی غلطی ثابت ہوئی تھی کیوں کہ اس کی بعد جو ہو ا تھاوہ میری زندگی کا سب سے برا خواب تھا
میرے وہم و گماں میں بھی نہیں تھا کہ وہ مولوی میرے ساتھ کچھ ایسا کرے گا اس نے مجھے زبردستی وہ سب کرنے کا کہا تھا جو میں بالکل بھی نہیں جانتی تھی میں نے اس سے دور ہو نا چاہا پر وہ مجھے کہنے لگا کہ اگر میں نے یہ سب نہ کیا تو وہ مجھے گھر نہیں جانے دے گا میں بھی اب پھنس چکی تھی اگر میں اس رات گھر نہ جاتی تو میرے محلے میں میری بدنامی کی خبر پھیل جانی تھی میں نے اس مولوی سے کہا کہ مجھے چھوڑ دے مجھے گندہ نہ کرے میں اب تک اس چیز سے بچی ہوئی تھی کیوں کہ اس سب کا حق ایک ہی انسان کو تھا جس نے میری زندگی میں آنا تھا پر مولوی کی آنکھوں میں مجھے دیکھ کر چمک اور بھی گہری ہوگئی تھی
میں نے چلانا شروع کر دیا تھا لیکن اس گھر میں مولوی اور میرے علاوہ اور کوئی بھی نہیں تھا میں نے دل میں سوچا تھا کہ کاش میرا بھائی آج بھی میرے ساتھ ہوتا تو یہ سب بالکل بھی نہ ہوتا میں نے اس کے گھر سے بھاگنے کوشش کی لیکن اس نے مجھے دوبارہ پکڑ کر گھسیٹ لیا تھا میں اب پوری اس کے رحم و کرم پر تھی میں نے غصے میں آکر اس کے منہ پر ایک تھپڑ لگایا تھا اس حرکت سے وہ مولوی بہت غصہ ہوا تھا جب ہی اس نے مجھے بیڈ پر دھکا دیا تھا میں نے بہت چیخ و پکار کی تھی پر اس رات کوئی بھی مجھے بچانے والا نہیں تھا مولوی نے جی بھر کر اپنی حوس پوری تھی اور میری پروا کیے بغیر اس نے مجھے گندہ کیا تھا کچھ دیر کے بعد وہ تھک گیا
تو مجھے بھی بھاگنے کی ہمت ملی تھی پر مجھ سے چلنا محال تھا میں فوراہی اپنے گھر کی طرف بھاگی تھی رات کے گیارہ بج رہے تھے مجھے لگ رہا تھا کہ میری امی واپس آگئی ہو نگی لیکن میں جیسے ہی گھر گئی تو گھر میں کوئی بھی موجود نہیں تھی میں نے جلدی سے پانی پیا اور اپنا سانس بحال کیا میری حالت بہت خراب ہو گئی تھی میرے کپڑے بھی جگہ جگہ سے اس حرکت کا ثبوت پیش کر رہے تھے میں نے فورا ہی اپنی کپڑوں کو تبدیل کیا تھا میر ادل کر رہا تھا کہ میں اس کپڑوں کو جلادوں میں بہا دھو کر اب چھت پر آگئی تھی اس کپڑوں کو میں نے جلا دیا تھا اور اپنے اندر کی غصے کی آگ کو اس حرکت سے ختم کیا تھا کچھ دیر بعد میں نے کھلی ہوا میں سانس لیا تھا
جب مجھے ایسے لگا جیسے گھر میں کوئی آیا ہو میں فور نیچے آگئی تھی امی واپس آگئی تھی اب وہ مجھے دیکھ کر حیران تھی کہ میں اتنی سردی میں کیوں نہائی ہوں میں ان کے گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی تھی اور ان سے کہنے لگی تھی کہ آج کے بعد میں اس مولوی کے پاس بالکل نہیں جاؤں گی پر امی مجھ سے پوچھتی رہی کہ میں انہیں ناجانے کی کوئی وجہ بتاؤں لیکن میں انہیں کچھ نہ بتاسکی میرے پاس وہ لفظ نہیں تھے میں اب گھر پر ہی رہنے لگی تھی اس بات کو ایک سال گزر چکا تھا ایک سال کے بعد میری ایک بہت اچھی جگہ منگنی ہو گئی تھی اور کچھ ہی عرصے کے بعد میری شادی بھی ہونے والی تھی پر میں وہ رات چاہ کر بھی نہیں بھلا رہی تھی
مجھے بہت ڈر تھا کہ اگر میرے ہونے والے شوہر کو پتا چل گیا کہ میرے ساتھ پہلے سب کچھ ہو چکا ہے تو میری زندگی برباد ہو جائے گی لیکن میں نے بھروسہ کیا اور شادی کی تیاریاں شروع کی کچھ عرصے کے بعد مجھے اس مولوی کے بارے میں خبر ملی تھی کہ اس کو کسی جرم کی وجہ سے پکڑایا جا چکا ہے میں اس خبر پر بہت ہی خوش ہوئی تھی مجھے بھی سکون مل گیا تھا اب مجھی پتا چلا تھا کہ اس نے میرے علاوہ بھی کافی لڑکیوں کو نشانہ بنایا تھا اور ان کے ساتھ زبر دستی کی تھی کسی لڑکی نے اس کو پولیس کے حوالے کیا تھا میری یہی کوشش تھی کہ اس مولوی کو سخت سے سخت سزا ہوتا کہ آئیندہ کسی کو بھی یہ سب کرنے کی ہمت نہ ہو
دن ایسے ہی گزرنے لگے تھے میری شادی کے دن بھی اور قریب آرہے تھے اب میں پچھلا سب کچھ بھول کر آگے بڑھنا چاہتی تھی اور ایساہی ہوا تھا میری آگے والی زندگی خوشیوں سے بھری ہوئی تھی
Sharing is caring!