Uncategorized آرٹیکل اہم خبریں دلچسپ و عجیب

پہلی رات بیوی کے ساتھ سلوک فوزیہ چار بھائیوں کی اکلوتی بہن تھی

Written by Admin

فوزیہ کو جو بھی دیکھتا دیکھتا ہی رہتا تھا چار بھائیوں کی اکلوتی بہن تھی۔ اس کے سب ناز نخرے اٹھاتے تھے وہ اتنی پیاری تھی کہ اس کی ماں کہتی تھی کہ اس

کی شادی کسی شہزادے سے ہو گی۔ فوزیہ کی سہیلیاں اس کی ہم عمر تھی۔ اور اس سے جلتی بھی تھی فوزیہ دل کی صاف لڑکی تھی۔ وہ کسی کے ساتھ

لڑائی جھگڑا نہیں کرتی تھی فوزیہ کی ماں نے کہا کہ شکوراں خالا آئی ہے دوپٹہ اوڑھ کر آنا ۔ شکوراں خالا کے ساتھ ایک خاتون اور ایک لڑکی بھی موجود تھی۔ فوزیہ سلام کر کے اپنی ماں کے ساتھ صوفے پر بیٹھ گئی۔ وہ عورت اور لڑکی فوزیہ کو دیکھ رہی تھی۔ تھوڑی دیر بعد ماں نے فوزیہ کو جانے کا اشارہ کیا

وہ معذرت کرتی ہوئی کمرے سے باہر آگئی۔ فوزیہ کو دیکھنے والی یہ چوتھی فیملی آئی تھی فوزیہ کی ماں چاہتی تھی۔ کہ جلد ہی فوزیہ کو کوئی اچھا رشتہ مل جائے اور وہ اپنے گھر چلی جائے۔ شکوراں خالا نے کہا کہ بہت اچھی فیملی ہے اور لڑکا بھی بہت اچھی نوکری کرتا ہے۔وہ لوگ جاتے ہوئے فوزیہ کو پسند کرکئے

بس وہ لڑکے کا انتظار کر رہے تھے۔ وہ کیا چاہتا ہے لڑکے کا نام رفاقت تھا اور اس نے فوزیہ کی تصویر کو دیکھ کر قبول کر لیا۔ رفاقت بہت خوش تھا جب فوزیہ کے گھر والوں نے بہت سارا جہیز دیا۔ فوزیہ کے محلے والے برات دیکھ کر کہہ رہے تھے۔ کہ ایسا لگتا ہے جیسے کوئی شہزادہ فوزیہ کو لینے آیا ہے ۔ جب فوزیہ

دلہن بنی تو قیامت ڈھار رہی تھی۔ جب فوزیہ رخصت ہوئی تو گھر سونا ہو گیا سرخ رنگ کے فراک میں فوزیہ پری لگ رہی تھی ۔ فوزیہ رفاقت کے گھر آئی تو رفاقت کہنے لگا کہ مجھے سمجھ نہیں آتی۔ لڑکیاں اتنا میک اپ اور اتنا زیور کیوں پہنتی ہیں۔ فوزیہ اسی وقت واش روم میں گئی اور پنا منہ دھو کر آگئی فوزیہ نے اپنا سارا زیو

اتار کر ڈبے میں پیک کر دیا۔ رفاقت بہت غصے سے فوزیہ کے ساتھ بات کرنے لگا۔ رفاقت اپنے موبائل میں مصروف ہو گیا اور فوزیہ بھی سو گئی۔ رفاقت کو احساس ہی نہیں تھا کہ وہ میری دلہن ہے اور آج شادی کی پہلی رات ہے۔ صبح جب رفاقت اٹھا تو وہ صحن میں جا کر اپنے بھتیجے اور بھتیجیوں کے ساتھ گپ شپ میں

مصروف ہو گیا۔ ساس اور سر کہنے لگے کہ بہو خوب صورت ہے لیکن نخرے والی تھوڑی دیر بعد رفاقت نے آواز دی کے اندر آؤ مجھے کوئی بات کرنی ہے۔ رفاقت نے کہا کہ تم اتنازیادہ میک اپ نہیں کیا کرو۔ اور پر فیوم بھی نہیں لگایا کرو۔ فوزیہ نے سوچ لیا کہ اس شہزادے کے لیے مجھے سب کچھ چھوڑنا پڑے گا۔

دوست بھی اپنی بیگرم تا میرے کرآتے ہیں۔ لیکن ایک دن فوزیہ کی ماں اس کو لینے کے لیے آگئی مگر رفاقت فوزیہ کو کہنے لگا کہ اتنی دیر اپنی ماں کے گھر رہی ہو ا بھی دل نہیں بھرا۔ رفاقت جب بھی اپنے آفس جاتا تو کہتا کہ تم بھی میرے ساتھ چلو میرے ساتھ مجھے یہ اچھا نہیں لگتا تھا کہ میں باہر کسیغیر مرد کے ساتھ بات بھی کروں۔ رفاقت کا سلوک پہلے دن سے ہی اچھا نہیں تھا۔ لیکن فوزیہ نے اپنی ماں کو کبھی بھی کچھ نہیں بتایا تھا۔ وہ کہتی تھی کہ واقعی رفاقت کوئی شہزاہ ہے۔ اس نے مجھے بہت خوش رکھا ہوا ہے لیکن جب وہ اکیلی ہوتی تو وہ اپنی قسمت پہ روتی تھی۔ ایک دن میرا بھائی مجھے چھوڑنے

میرے سسرال چلا گیا۔ رفاقت نے میرے بھائی کو بھی بہت ہی باتیں کہیں کہ گھر کا کوئی کام نہیں کرتی سارا دن سوئی رہتی ہے۔ میرا کوئی خیال نہیں کرتی میری ماں بوڑھی ہے۔ اس کا بھی کوئی حال نہیں رکھتی میں نے شادی اس لیے تو نہیں کی تھی کہ یہ سارا دن یہاں پر سوئی رہے۔ رفاقت نے مجھے کچھ دن بعد طلاق دے دی۔اور طلاق کے کاغذت میرے ہاتھ میں دیے اور مجھے اپنی ماں کے گھر چھوڑ آیا۔ میری سہیلیاں بھی مجھ پر باتیں کرنے لگیں۔ کہ اتنا غرور کرتی تھی تم اپنے حسن پر لیکن اتنے حسن کا کیا فائدہ تم کو تمہارے شوہر نے طلاق دے کر گھر بھیج دیا۔ طلاق کا داغ بہت برا تھا مجھے طرح طرح کی باتیں سننی پڑتی تھیں۔

دو سال ہو گئے مجھے میرے ماموں کے گھر پر رہتے ہوئے۔ اپنے ماں باپ کے گھر کبھی نہیں گئی۔ کیونکہ میں جب بھی وہاں جاتی تو مجھے اپنے پرانے دن یاد آتے تھے۔ میری ماں میرے لیے طلاق یافتہ لڑکا ڈھونڈنے لگی کہ میری بیٹی کا گھر بس جائے۔ ایک دن میرے ماموں نے میری ماں کو فون کیا اور کہنے لگا کہ آپ کی اجازت ہو تومیں اپنے بیٹے کی شادی آپ کی بیٹی سے کردوں تو میری ماں کہنے لگی کہ آپ میرے بڑے بھائی ہیں آپ جیسا کریں گے ویسا ہی ہمیں قبول ہو گا۔ مجھے اپنی ماں کا فیصلہ قبول کرنا پڑا اور اپنی ماں اور اپنے ماموں کی عزت رکھ لی۔ شادی کے بعد میں نے اسکول میں پڑھانا چھوڑ دیا اور گھر میں رہتی تھی۔

اپنی مامی کے ساتھ گھر کا کام کرتی اللہ نے مجھے ایک بیٹا دیا بہت ہی پیارا تھا اور آہستہ آہستہ مجھے اپنی زندگی سے پیار ہونے لگا۔ اور میں اپنے بیٹے اور شوہر کے ساتھ اچھی زندگی گزارنے لگی۔

Sharing is caring

About the author

Admin

Leave a Comment