شوہر رات کو بستر پر اپنی بیوی کے ساتھ اپنے گھر میں تنہائی کے لمحات میں اچھے موڈ میں تھا

امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے زمانے کا واقعہ ہے کہ ایک علاقے میں کوئی حاکم تھا حاکم رات کو بستر پر اپنی بیوی کے ساتھ اپنے گھر میں تنہائی کے لمحات میں تھا وہ اچھے موڈ میں تھا مگر بیوی کسی وجہ سے ناراض تھی شوہر جتنا اس سے پیار محبت کی باتیں کرتا

وہ اتنا ہی اس سے چڑتی اور اس سے بد تمیزی کرتی ، جب شوہر نے بہت زیادہاس سے محبت کا اظہار کیا اور ہمبستری کرنے لگا تو عورت کا دماغ اس وقت گرم تھا ۔ وہ کسی بات پر غصہ تھی اور بیوقوف آگے سے کہنے لگی کہ ” او جہنمی ” پیچھے ہٹو مجھے ہاتھ مت لگاؤ اب جب اس نے اپنے شوہر کو جہنمی کہا تو آخر وہ بھی مرد تھا اسے غصہ آگیا کہ میری بیوی نے کیسے مجھے ہمبستری سے منع کر دیا ۔ اس نے کہا کہ اچھا اگرمیں جہنمی ہوں تو پھر تجھے میری طرف سے طلاق ہے ۔ اب رات گزرگئی صبح جب دونوں کا دماغ ٹھنڈا ہوا تو عورت کو بھی اپنی غلطی کا احساس ہوا کہ میں اپنے شوہر سے سے ناراض تھی مگر مجھے یہ نہیں کہنا چاہیے تھا

کہ تم جہنمی ہو میں نے تو غلطی کر لی اب وہ اپنے شوہر سے پوچھنے لگی کہ جی کیا مجھے طلاق ہو گئی ۔ اس نے کہا کہ پتہنہیں یہ شرطیہ تھی کہ اگر میں جہنمی ہوں تو تجھے میری طرف سے طلاق ہے لہذا مجھے علمائے کرام سے پوچھنا پڑے گا ۔ شوہر نے علماء کرام کو بلایا اور اپنا مسئلہ بیان کیا ۔ علماء کرام کہنے لگے اس کا جواب ہم تو نہیں دے سکتے کیونکہ ہم نہیں جانتے کہ آپ جہنمی ہیں یا جنتی یہ تو قیامت کے دن اللہ تعالی ہی فیصلہ کریں گے ۔لہذا بہت سارے علماء کرام سے رابطہ کیا گیا مگر کوئی عالم کوئی مفتی اس کا جواب نہیں دے پا رہا تھا ، شہر کا حاکم پریشان تھاوہ بھی اپنی خوبصورت بیوی کو طلاق نہیں دیتا چاہتا تھا بیوی بھی اب طلاق نہیں لینا چاہتی تھی ۔ چنانچہ امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کو کسی نے بتایا کہ فلاں علاقے میں یہ واقعہ پیش آیا ہے انہوں نے فرمایا مجھے وہاں لےچلو میں اس سوال کا جواب دے سکتا ہوں ۔

چنانچہ امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ تشریف لائے اور انہوں نے حاکم سے پوچھا کہ کیا واقعہ پیش آیاد حاکم نے بتایا کہ اس طرح میری بیوی نے یہ الفاظ کہے ہیں اور میں نے اس کے جواب میں یہ الفاظ کہے اب بتائیں طلاق ہوئی ہے کہ نہیں امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ جناب اد عالی اس کا جواب دینے کے لئے مجھے آپ سے تنہائی میںکچھ باتیں پوچھنی پڑیں گی اس نے کہا کہ ٹھیک ہے ۔ ۔ چنانچہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے حاکم سے کہا مجھے زندگی کا کوئی ایسا واقعہ بتاؤ کہ جس میں آپ گناہ کرنے کا موقع رکھتے ہوں گناہ کرنا آپ کے لئے آسان ہو مگر اللہ کے ڈر کی وجہ سے آپ نے اپنے آپ کو بچالیا ہو ۔ حاکم تھوڑی دیر سوچنے کے بعد کہنے لگا ہاں ایک دفعہ میری زندگی میں یہ واقعہ پیش آیا کہ ایک دن میں جلدیمیں اپنے دفتر کے کاموں سے فارغ ہو کر اپنے کمرے میں چلا گیا پھر جیسے ہی میں کمرے میں داخل ہوا تو دیکھا کہ محل میں کام کرنے والی لڑکی میرے کمرے میں چیزوں کو سنوار رہی تھی بستر کو ٹھیک کر رہی تھی

جب میری نظر اس کے چہرے پر پڑی تو لڑکی حسن و جمال میں بڑی اعلی تھی ۔ چنانچہ میں نے دروازے کو بند کر دیا جب میں آگے بڑھا تو لڑکی سمجھ گئی کہ میری نیت خرابہے وہ نیک بخت اور پاک دامن تھی میری طرف دیکھ کر اس نے کہا اے بادشاہ اللہ سے ڈرو جیسے ہی اس نے یہ الفاظ بولے تو میرے دل میں ڈر آ گیا اور میری آنکھوں کے سامنے میدان محشر کا منظر آگیا کہ جب میں اللہ کے سامنے پیش ہوں گا تو اپنے اللہ کو کیا جواب دوں گا ۔ میں نے دورازہ کھول دیا اور لڑکی سے کہا چلی جاد حالانکہ اگر میں چاہتا تو لڑکی سے اپنی خواہش پوری کر سکتا تھا کیونکہمجھے کسی نے پوچھنا ہی نہیں تھا مگر اس نیک بچی کے یہ الفاظ میرے دل پر بجلی کی طرح گرے اور مجھے اللہ کا خوف آ گیا ۔ میں نے گناہ کے اس موقع سے بچنے کے لئے اس لڑکی کو واپس بھیج دیا

یہ ایک ایسا گناہ تھا جو میں کر سکتا تھا مگر اللہ کے خوف کی وجہ سے میں نے نہیں کیا ۔ جب اس نے یہ واقعہ سنایا تو امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ نے اس سے کہا کہ آپ کی بیوی کو طلاقنہیں ہوئی اس لیے کہ آپ جہنمی نہیں ہیں آپ جنتی ، ہیں ، جب انہوں نے یہ فتوی دیا تو سارے عالم دین ان سے بحث کرنے لگے کہ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں آپ کیسے جنت کا ٹکٹ دے سکتے ہیں کیا پرمٹ آپ کے ہاتھ میں ہے کہ یہ بندہ جنتی ہے یا جہنمی آپ رحمتہ اللہ علیہ نے فرما یا فتوی میں نے اپنی طرف سے نہیں دیا بلکہ یہ فتوی ا اللہ تعالی نے قرآن مجید میں خود عطافرمایا ہے ، قرآن کیآیت ہے ” اور جو شخص اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرا اور اس نے اپنے نفس کو خواہشات میں پڑنے سے بچا لیا اس کا ٹھکانہ جنت ہوگا ” ۔ اللہ نے چونکہ فرما دیالہذا میں فتوی دیتا ہوں کہ اس کبیرہ گناہ سے بچنے کی وجہ سے یہ بندہ قیامت کے دن جنت میں داخل ہو گا ، جو بھی آج کے دور میں گناہ کی دعوت ملنے کے باوجود اپنے آپ کو مضبوط رکھتی ہے اور اپنی عزت اور پاکدامنی کومحفوظ رکھتی ہے اور دعوت دینے والے کو نہیں کا جواب دے دیتی ہے تو وہ لڑ کی قیامت کے دن اللہ کی جنت میں داخل ہو گی اور اللہ کا دیدار عطا کیا جاۓ گا اللہ ہمیں بھی پاکدامنی کی زندگی گزارنے کی توفیق عطافرمائے اور اس آیت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرماۓ آمین ۔ ارت کے

Sharing is caring!

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *