
ایک مومنہ خاتون
بیان کیاجاتا ہے کہ ایک نیک شخص نے نہایت خوبرو پرہیز گار خاتون سے شادی کی، دونوں ایک دوسرے سے خوب محبت کرتے تھے۔ مسرت بھرے دن گزر
رہے تھے۔ ایک دن شوہر کو طلب رزق کےلیے سفر کی حاجت آپڑی ۔ اپنی بیوی کو گھر میں تنہاء کیسے چھوڑے ، قرابت داروں میں کسی معتبر شخص کی تلاش شروع کی، اسے اپنے سگے بھائی کے علاوہ کوئی معتبر ذمہ دار نہ ملا، بھائی کے گھر میں بیوی کو چھوڑا، مگر پیارے نبی ﷺ کا یہ فرمان بھول گیا “الحمو الم وت” دیور م وت ہے۔ اور وہ سفر پرروانہ ہوگیا۔ دن گذرتے گئے ۔
ایک روز دیو ر نے اپنی بھابھی کو غیر اخلاقی پر اکسایا، مگر اس پاکباز خاتون نےاسے سختی سے ڈانٹااور کہا:تم چاہتے ہو کہ میری عزت کی دھجیاں بکھیرو اور میں شوہر کی خائن بن جاؤں ، ہرگز نہیں ۔ دیورنے بھابھی کو رسوا کرنے کی دھمکی دی۔ اس نیک خاتون کا شوہر جب سفر سے لوٹا تو اس کے بھائی نے فوراً اپنی بھابھی پر الزام لگادیا کہ تمہاری بیوی نے مجھے بدکاری پر اکسایا تھا لیکن میں نے منع کیا، شو ہر نے بغیر سوچے سمجھے اس وقت پارسا بیوی کو طلاق دیدی اور کہا : مجھے اپنی بیوی سے کچھ نہیں سننا ہے ، میرا بھائی سچا ہے ۔
وہ متقی اورخدا ترس خاتون گھر سے انجان منز ل کی طرف نکل پڑی ، راستے میں ایک عابد و زاہد کا گھر پڑا، دروازہ پر دستک دی اور اپنی ساری کہانی عابد سے کہہ ڈالی، اس عبادت گزار بندے نے اپنے چھوٹے بیٹے کی نگہداشت پر اسے مامور کردیا، ایک دن عابد گھر سے کسی کام کے لیے باہر گیا، گھر کا نوکر موقع پاکر اس خاتون پر ڈورے ڈالنے لگا، مگر عز م و ثبات کی پیکر نے اللہ کی معصیت سے انکار کیا، اور کہا: نبی ﷺ نے ہم سب کو تنبیہ کی ہے کہ کوئی شخص کسی اجنبی خاتون کے ساتھ خ لوت میں ہرگز نہ ہو، اس لیے کہ ان کا تیسرا شیطان ہوتا ہے ، نوکر نےخاتون کو دھ مکی دی کہ میں تمہیں بڑی مصیبت میں پھنسا دونگا، مگر اس پیکر عفت کے پاؤں میں لغزش بھی نہیں آئی،نوکر نے عابد کے بچے کو ق ت ل کردیا۔ اور عابد کے گھر لوٹنے پر ق ت ل کا الزام اس خاتون پر عائد کردیا۔
اس اللہ والے عابد کو غصہ آیا مگر اللہ سے اجر کی امید باندھ کر صبر کرگیا، دو دینا ر اجرت کے طور پر خاتون کو دئے اور گھر چھوڑنے کا حکم دیا۔ عابد کا گھر چھوڑا، شہر کی طر ف رخ کیا، وہاں دیکھا کہ ایک بھیڑ ایک شخص کو پیٹے جارہی ہے۔ اس نے پوچھا تم لوگ اسے کیوں م اررہے ہو؟ ایک آدمی نے بتایا اس کے ذمہ قرض ہے یا تو قرض ادا کرے یا ہمارے غلامی کرے، خاتون نے پوچھا اس پر کتنا قرض ؟ کہا: دودینار اس پر خاتون نے انہیں دو دینا ر دے کر اس شخص کو آزاد کرایا، آزاد ہونے والے شخص نے پوچھا تم کون ہو؟ اس خاتون نے اپنی پوری کہانی بیان کردی ، اس پر آدمی نے کہا: کہ ہم دونوں ساتھ کام کریں گے اور نفع برابر بانٹ لیں گے، خاتون نے حامی بھر دی، اس آدمی نے کہا: ہم یہ گ ن دی بستی چھوڑ کر سمندری سفر پر نکلتے ہیں، خاتون نے کہاٹھیک ہے ، دونوں کشتی کےپاس پہنچے
، نوجوان نے کہا: کہ پہلے تم کشتی پرسوار ہو، وہ سوا ہوگئی اور وہ شخص کشتی کےمالک کے پاس گیا اور کہا: یہ میری لونڈی ہے میں اسے فروخت کرنا چاہتاہوں ، چنانچہ کشتی کے مالک نےپیسے چکائے اور خاتون کو اس کی لاعلمی میں اسے خرید لیا، وہ شخص پیسہ لے کر بھاگ نکلا، کشتی روانہ ہوئی، خاتون اس شخص کو ڈھونڈنے لگی مگر نہیں پایاِ، کشتی کےعملہ نے اسے گھیر لیا اور اس سے چھیڑ چھاڑ کرنے لگے ، خاتون کو تعجب ہوا ، اس پر کشتی کےکپتان نے بتایا کہ میں نے تمہیں مالک سے خرید لیا ہے اور اب تم وہ سب کرو جس کا حکم دیا جائے ، اس نے ملتجیانہ لہجے میں کہا: میں اللہ کی نافرمانی نہیں کرسکتی مجھے چھوڑ دو، یہ کہنا ہی تھا کہ سمند ر میں آندھی اور طوفان آیا، کشتی ڈوب گئی ،
جہاز کا عملہ اور سارے مسافر ڈوب گئے۔ لیکن وہ صابر خاتون بچ گئی ، اس وقت امیر شہر ساحل سمندر پر تفریح میں مشغول تھا، بے موسم کی آندھی کو دیکھ کر وہ بھی گھبرایا لیکن اس کا اثر ساحل پر نہیں تھا ، پھر یکایک اس کی نگاہ اس خاتون پر پڑی جو کہ ایک تختہ کے سہارے ساحل کی طرف آرہی تھی ، امیر نے گارڈوں کو حکم دیا کہ اسے میرے پاس لایاجائے۔ اس خاتون کو محل لے جایاگیا، ماہر اطباء کی نگرانی میں اس کا علاج شروع ہوا، جب اسے افاقہ ہوا تو امیر شہر نے اس سے دریافت کیا تو اس نے ساری حکایت بیان کر ڈالی، دیور کی خیانت سے لے کر کشتی والوں کی شرارت تک سارے واقعے بیان کئے ۔ حاکم شہر کواس کے صبر نے موہ لیااور اس سے شادی کرلی
، امور سلطنت میں مشیر کار کی حیثیت ملی اور چند ہی دنوں میں اس کی زبردست رائے اور قوت فیصلہ کی شہرت دور دور تک پھیل گئی۔ وقت گذرتا رہا ، نیک حاکم کاا ن ت قا ل ہوگیا، اعیان شہر اکٹھا ہوئے ، کہ کس کو اب حاکم بنایا جائے، متفقہ طور پر لوگوں نے اس ذہین اور عاقل خاتون کو اپنا امیر منتخب کرلیا، حاکم بنتے ہی اس خاتون نے ایک وسیع میدان میں کرسی لگانے کااورشہر کے تمام مردوں کو حاضر ہونے کا حکم دیا ، تمام مرد حضرات اس کے سامنے سے گزرنے لگے ، اس نے اپنے سابق شوہر کو دیکھا اور کنارے ہوجانے کا اشارہ کیا، پھراس کے بھائی کو کنارے ہونے کا حکم دیا ، عابد کو بھی ایک کنارے کیا، پھر اس نے عابد کے نوکر کو دیکھا اسے بھی مجمع سے الگ کھڑے ہونے کا حکم دیا
پھر اس خبیث شخص کودیکھا جسے اس خاتون نے آزاد کرایا تھا، اسے بھی کنارے کھڑے ہونے کا حکم دیا۔ اب باری باری فیصلہ کرنے لگی ، سب سے پہلے سابق شوہر سے مخاطب ہوئی : تم کو تمہارے بھائی نے دھوکے میں رکھا اس لیے بری ہو، لیکن تمہارے بھائی کو حد قذف لگائی جائے گی اس لیے کہ اس نے مجھ پر جھوٹی تہمت لگائی تھی ، پھر عابد سے مخاطب ہوئی اور کہا: تم کو تمہارے خادم نے گمراہ کیا لہذا تم بھی بری ہو، لیکن تمہارا خادم قصاصاً ق ت ل کیا جائے گا، کیونکہ اسی نے تمہارے بچے کو ق ت ل کیا تھا، پھر وہ مخاطب ہوئی اس خبیث سے : تمہیں حبس دوام کی سزادی جاتی ہے۔ ، تمہاری خیانت اور ایسی عورت کو فروخت کردینے کے جرم میں، جس نے تجھے غلامی سے نجات دلائی تھی ۔ اخلاقی سبق یہ ہے کہ اللہ کی ذات پاک ہے ، کسی کے اچھے عمل کو ضائع ہونے نہیں دیتا ، فرماتاہے: “جو اللہ سے تقویٰ اختیار کرتا ہے اللہ اس کےلیے ایسے راستے ہموار کردیتا ہے اور ایسی جگہ سے رزق عطاکرتا ہے جس کا اسے گمان نہیں ہوتا.
Leave a Reply