
”طیبہ کی بیٹی جو اب چودہ سال کی ہو چکی تھی
یبہ کا تعلق اندرون سندھ سے تھا۔ اسکے والد صاحب ایک وڈیرے کے مزارعے تھے۔ اس کے دو بھائی تھے اور وہ اکلوتی بہن تھی، سارا خاندان مل کر محنت کرتے تھے۔ تب جا کر گھر میں تین وقت کی روٹی اور زمین کا ٹھیکہ ادا کر پاتے تھے ۔ طیبہ اور اس کی ماں وڈیرے کی کو ٹھی پر کام کرنے کے لئے جاتے رہتے تھے۔
آغاز جوانی میں ہی وڈیرے کے بیٹے طلعت نے طیبہ کو محبت کے نام پر ورغلانا شروع کر دیا۔ گو کہ ان پڑھ ہونے کے باوجود جس حد تک ممکن تھا والدین نے طیبہ کی بہترین تربیت کی تھی۔ مگر بعض دفعہ جب انسان قصد ا گناہ کرنے کا ارادہ کر لیتا ہے ۔ تو شیطان اس کی عقل پر پردہ ڈال دیتا ہے طیبہ کے ساتھ بھی
کچھ ایسا ہی ہوا۔ جب وڈیرے کے بیٹے نے اس کو ور غلانا شروع کیا تو پہلے پہل طیبہ اسکے بہکاوے میں نہ آئی ہر ممکن اس سے کتراتی رہی۔ مگر اسکے نفس میں بھی چور تھا طیبہ کو بھی گناہ لذت سے آشنا ہونا تھا۔ لہذا آہستہ آہستہ بات منہ زبانی سے ہوتی ہوئی ایک دوسرے کو چھونے تک پہنچی۔ اسی دوران وڈیرے کے
گھر میں کام کرنے والی دوسری عورت نے طیبہ کو وڈیرے کے بیٹے طلعت کے ساتھ دیکھ لیا۔ یوں بات حویلی سے باہر نکلتے ہی آہستہ آہستہ پورے گاؤں میں پھیل گئی اور سب سے آخر میں طیبہ کے گھر بھی پہنچ گئی۔ اس کے والدین نے طیبہ سے اس بات کے متعلق حقیقت جاننا چاہی تو وہ صاف مکر گئی۔ طیبہ کو حویلی کی
اس نوکرانی کے رو برولا یا گیا جس نے اسکو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ ملازمہ کو طیبہ کے رو برو آنے سے پہلے ہی، وڈیرے کے بیٹے نے ڈرا دھمکا کر بیان بدلوا دیا تھا یوں اس کے گناہ پر پر روڈل گیا۔ مگر اتنی بڑی اور واضح نصیحت کے باوجود بھی طیبہ نے کوئی عبرت نہ پکڑی۔ اور سچا ثابت ہو جانے پر طیبہ کے گھر والے بھی
اس سے نظریں چرا کر پھرنے لگے ۔ اب وہ کھل کر ماں کے ساتھ حویلی جانے لگی اور بات فقط ایک دوسرے کو چھونے سے آگے بڑھنے لگی۔ اسی دوران ایک بار طیبہ اور وڈیرے کا بیٹا بوس و کنار ہو رہے تھے۔ کہ اچانک طیبہ کی ماں کمرے میں آدھمکی، البتہ اسکی ماں نے سمجھدار ماؤں کا کردار ادا کرتے ہوئے بنا چینے چلائے
یا شور مچائے طیبہ کو بازو سے پکڑا اپنے ساتھ کام پرلگایا۔ جب سے اسکی ماں نے اسے وڈیرے کے بیٹے کے ساتھ اس حالت میں دیکھا تھا، طیبہ کی ماں کے آنسو نہیں رک رہے تھے ۔ ماں نے بہتے آنسوؤں کے ساتھ حویلی میں کام ختم کیا اور اسکو لے کر گھر آگئی۔ اسکی زندگی میں وہ پہلا دن تھا جب طیبہ کی ماں نے اسے
اتنا مارا جتنا وہ مار سکتی تھی۔ البتہ طیبہ کی ماں نے ماں ہونے کا حق ادا کرتے ہوئے یہ بات اسکے بھائیوں سے چھپالی۔ مگر چونکہ طیبہ پر حویلی میں کام کے لئے جانے کی پابندی لگ گئی تھی۔ تو گاؤں میں چہ مگوئیاں ہونے لگیں۔ پھر حویلی میں سے ہی کسی نے اس بات کی تصدیق کر دی۔ تو اب بات پورے گاؤں میں
جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی۔ طیبہ کے والد صاحب کو حقیقت کا علم ہو چکا تھا۔ مگر اسکے بھائیوں کو اس بات کا یقین دلایا گیا کہ یہ سب جھوٹ ہے۔ تاکہ وہ طیش میں آکر کوئی اور قدم نہ اٹھا دیں۔ اُسکے لئیے کوئی مناسب بر تلاش کیا جانے لگا۔ مگر طیبہ کے کردار پر لگے داغ کی وجہ سے کوئی بھی اسے
لیا۔ کہ خالہ اپنے بیٹے کے لئے طیبہ کا ہاتھ مانگے گو کہ اسکی خالہ آنکھوں سے محروم تھی۔ مگر پھر بھی اپنی بہن پر چھائے دکھوں کے بادل دیکھ اور سمجھ سکتی تھی۔ لہذا طیبہ کی خالہ نے طیبہ کو
اپنے بیٹے کے لئیے مانگ لیا۔ وہ شادی کر کے رخصت ہو کر خالہ کے گھر چلی گئی۔ طیبہ کا خالہ زاد الطاف کراچی میں کسی کو ٹھی پر سیکورٹی گارڈ تھا۔ وہ مہینے میں ایک آدھ بار ہی گھر آتا تھا گھر میں سارا دن طیبہ اور خالہ ہی رہتے تھے۔ شادی کے ڈیڑھ سال بعد طیبہ نے ایک بیٹی کو جنم دیا اور بیٹی کو جنم دینے کے بعد
وہ دوبارہ کبھی ماں نہ بن سکی۔ الطاف اور طیبہ کی شادی کو سات سال گزر چکے تھے ۔ طیبہ کی بیٹی تقریباً ساڑھے پانچ سال کی تھی اس کی ساس کی مکمل بینائی جا چکی تھی۔ اسی دوران طیبہ اور اس وڈیرے کے بیٹے کا رابطہ بہال ہو گیا۔ اس نے طیبہ سے شادی کی خواہش کا اظہار کیا اور اس کو اپنی
محبت کا یقین دلایا۔ اس نے طیبہ کو بچی سمیت قبول کرنے کی ہامی بھر لی اب الطاف سے جان چھڑانے کا مسئلہ تھا۔ آخر کار الطاف کو موت کی نیند سلا کر اس سے جان چھڑانے کا فیصلہ کر لیا گیا۔ اور منصوبے کے مطابق الطاف کو کھانے میں زہر ڈال کر کھانا کھلا دیا گیا۔ الطاف ساری رات تڑپ تڑپ کر
صبح صادق کے قریب دنیا سے گزر گیا۔ طیبہ نے الطاف کی لاش کو سیدھا کیا اور نماز کے بعد رونا دھونا شروع کر دیا۔ چونکہ الطاف کے پیچھے اس کی بوڑھی نابینا ماں کے علاوہ اور کوئی رشتہ نہ تھا۔ لہذا کسی کو بھی اس پر شک نہ ہوا نہ ہی کسی نے موت کی وجہ جاننے میں دلچسپی لی۔ الطاف کو دفنا دیا گیا
اور طیبہ الطاف کی ماں کے ہمراہ اپنے گھر آ بیٹھی۔ ابھی عدت بھی پوری نہیں ہوئی تھی کہ طیبہ وڈیرے کے بیٹے کے ساتھ اپنی بیٹی کو لے کر گھر سے فرار ہو گئی۔ طلعت نے طیبہ سے نکاح کر لیا سب کچھ بالکل ٹھیک چلتا رہا یہاں تک کہ طیبہ کو اپنی غلطی اور گناہ کا کبھی احساس بھی نہ ہوا۔ پھر ایک دن
طیبہ کی بیٹی جواب چودہ سال کی ہو چکی تھی۔ اس نے بتایا کہ امی ابو میرے ساتھ نازیبا حرکات کرتے ہیں۔ بیٹی کی بات سن کر طیبہ نے اپنے شوہر سے بات کی تو وہ صاف مکر گیا۔ بلکہ الٹا کپڑے دھونے والے ڈنڈے سے طیبہ کی بیٹی کو پیٹ ڈالا۔ اُس دن کے بعد بیٹی وقتاً فوقتاً طیبہ کو شکایت کرتی، طیبہ نے لاکھ
اپنے شوہر پر نظر ر کھی، مگر اسے کبھی رنگے ہاتھوں نہ پکڑ سکی۔ ایک دن طیبہ کے شوہر نے انتہائی طیش میں اسکی بیٹی کو مارنا شروع کر دیا۔ طیبہ کے پوچھنے پر بتایا کہ اس کا کسی لڑکے کے ساتھ ناجائز تعلق ہے۔ طیبہ نے بھی اپنے شوہر کے ساتھ مل کر بیٹی کو پیٹنا شروع کر دیا، طیبہ کے شوہر نے کہا کہ یہ اپنا گناہ
چھپانے کے لئیے مجھ پر الزام لگاتی تھی۔ جبکہ طیبہ کی بیٹی قسمیں کھاتی رہی کہ ماں ابو نے مجھ پر اپنی ہوس مثانی چاہی۔ میں نے انکار کر دیا تو اس بات کی سزا دے رہا ہے۔ طیبہ نے بیٹی کی بات کا قطعی یقین نہ کیا کیوں کہ اسکا ماضی اس کے سامنے تھا۔ دوسرا طیبہ کی آنکھوں پر اسکے شوہر کی محبت کی
پٹی بندھی تھی۔ لہذا طیبہ نے بنا ترس کیسے بیٹی کو اتنا پیٹا کہ وہ بیہوش ہو گئی۔ اس دن کے بعد طیبہ کی بیٹی نے کبھی طیبہ کو اپنے سوتیلے باپ کے متعلق شکایت نہیں کی۔ پھر اس واقعہ کے سات ماہ بعد اچانک طیبہ کی بیٹی نے خود کشی کر لی۔ انہوں نے چپ چاپ دفتانا
پوسٹ مارٹم کروایا تو پتہ چلا کہ طیبہ کی بیٹی امید سے تھی۔ دونوں میاں بیوی گرفتار ہوئے تو پولیس کی تفتیش کے دوران طیبہ کے شوہر نے اسکے سامنے اسکی بیٹی سے زیادتی کی تصدیق کر دی۔ بلکہ یہ بھی بتایا کہ وہ اس کی بیٹی کو ڈرا دھمکا کر دوستوں کی لذت کا سامان بھی بناتا تھا۔ اس انکشاف کے بعد
طیبہ کے تو حواس بحال نہ رہے۔ وہ بیہوش ہو کر گر پڑھی تین دن بعد ہوش میں آئی۔ پولیس نے طیبہ کو بے قصور قرار دے کر بری کر دیا۔ جب کہ طیبہ کو بتایا کہ اسکی بیٹی نے خود کشی نہیں کی بلکہ اس کے محبوب شوہر نے اسکی بیٹی کے سوتیلے باپ۔ اس وڈیرے کے بیٹے نے اپنا گناہ چھپانے کے لئیے
اس کی بیٹی کو زندہ جلا دیا ہے۔ طیبہ کا شوہر آج جیل میں اپنی سزا بھگت رہا ہے۔ طیبہ کے والدین اور خالہ گزر چکے ہیں۔ طیبہ کے بھائی گاؤں چھوڑ گئے ہیں جبکہ طیبہ بیٹی کے غم اور گناہوں پر پچھتاتے ہوئے رو رو کر نا بینا ہو چکی ہے۔ طیبہ نے پولیس کے سامنے الطاف کے قتل کا اقرار کیا ہے۔ مگر انہوں نے
بجائے طیبہ کو گرفتار کرنے کے کہا ہے کہ تیرے لیے جو سزا اللہ نے چن لی وہ ہی کافی ہے۔ آج طیبہ کی آنکھوں کی بینائی جاچکی ہے۔ طیبہ کی سب سے بڑی خواہش فقط ایک بار سب رشتوں سے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگنا اور ایک نظر اس دنیا کو دیکھنا ہے۔ مگر طیبہ کی خواہش پوری ہونا نا ممکن ہے۔ طیبہ اس وقت
کراچی کے ایک فلاحی ادارے میں رہائش پذیر ہے جہاں طیبہ کو بہترین کھانا اور رہائش مل رہا ہے ۔ مگر طیبہ جب بھی چلتے ہوئے ٹھو کر کھا کر منہ کے بل کرتی ہے تو خیال آتا ہے کہ جب اس کی نابینا خالہ اپنے جوان بیٹے کو ملنے اس کی قبر پر جاتی ہو گی تو ایسے ہیٹھوکر کھا کر گرتی ہو گی۔
Leave a Reply